مظفرگڑھ…. صوبہ پنجاب کا مَردم خیز شہر
عبدالمجیب زاہد، مظفرگڑھ
تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل ،مظفّرگڑھ، صوبہ پنجاب کا ایک زرخیز شہر ہے، جس کی بنیاد، اُس وقت کے ملتان کے حاکم، نواب مظفّر خان نے 1794ء میں رکھی۔قبل ازیں اس ضلعے کا نام خان گڑھ تھا۔ 1849 ء میں انگریزوں کے زیر تسلط آجانے کے بعد تک اس کا ہیڈکوارٹر، خان گڑھ اور نام ضلع خان گڑھ ہی رہا۔ اس وقت یہ 4 تحصیلوں رنگ پور، کنجھر، خان گڑھ اور سیت پور پر مشتمل تھا، جب کہ گڑھ مہاراجہ اور احمد پور سیال بھی اس کا حصّہ تھے۔1861ء میں مظفّر گڑھ سے رنگ پور تحصیل ختم کرکے، گڑھ مہاراجہ اور احمد پور کے علاقے جھنگ اورکوٹ ادّو، ضلع لیّہ سے علیحدہ کرکےاس میں شامل کردیئے گئے۔ بعدازاں، 1909ء میں لیّہ کوبھی مظفّرگڑھ سے علیحدہ کرکے اور ضلعے کا درجہ دے کراس کا ڈیرہ غازی خان سے الحاق کردیا گیا۔
ضلع مظفّرگڑھ اپنی تہذیب و ثقافت،زراعت و صنعت،سیاست و تجارت،علم و ادب اور جغرافیائی محلِ وقوع کی بنا پر منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس کی 4 تحصیلیں کوٹ ادّو،مظفّرگڑھ،علی پور اور جتوئی ہیں۔ مشرق میں دریائے چناب اور مغرب میں دریائے سندھ بہتے ہیں۔40لاکھ سے زائد آبادی کے اس ضلعے کا کُل رقبہ 8250 کلومیٹر پر محیط ہے۔مقامی زبان سرائیکی کے علاوہ یہاںپنجابی اور اردو بھی بولی جاتی ہے۔87 فی صد لوگ دیہات اور 13 فی صد شہروں میں رہتے ہیں۔ آب و ہوا مجموعی طور پر گرم اور خشک ہے اورزیرِ کاشت رقبہ گیارہ لاکھ بیس ہزار آٹھ سو نوّے ایکڑ ہے۔ اہم فصلوں میں گندم، کپاس، گنّا، چاول شامل ہیں، جب کہ کھجور، آم اور انار کے باغات ضلعے کی وجۂ شہرت ہیں۔ تمام قسم کی سبزیوں کی پیداوار کے علاوہ لائیو اسٹاک اور فشریز میں بھی مظفّرگڑھ کا شمار صف ِاوّل میں ہوتا ہے۔ ضلعے کے 984 مواضعات میں بہترین نہری نظام موجود ہے، جو زرعی زمینوں کو سیراب کرتا ہے، جب کہ کوٹ ادّو کے نزدیک تونسہ بیراج اور علی پور کے نزدیک ہیڈ پنجند میں پانچوں دریائوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ ڈیلٹائی خصوصیات کی بِنا پر فصلوں اور پھلوں کا معیاراعلیٰ ہے، تو ریونیو کے اعتبار سے بھی مظفّر گڑھ صوبے بھر میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔یہاں کے زیادہ تر غریب اور محنت کش طبقے کا گزر بسر محنت مزدوری اور کھیتی باڑی پرہے، جس کی وجہ سے خواندگی کی شرح خاصی کم ہے۔
1964ء میں پہلی تھل جوٹ مِل (ایشیا کی سب سے بڑی جوٹ مل) کے قیام کے بعد سے مظفّرگڑھ میں ترقی کا دَورشروع ہوا،اس سے قبل یہاں کے باشندوں کا ذریعۂ معاش کھیتی باڑی تک محدود تھا۔ اس وقت ضلعے میں متعدد ٹیکسٹائل، جوٹ، کاٹن، شوگر اور فلورملز کے علاوہ 300رجسٹرڈ کارخانہ جات بھی ہیں، جب کہ یہاں قائم 3بڑے تھرمل پاور اسٹیشن پورے ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کا بیس فی صد سے زائد مہیّا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، 1996ء میں قصبہ گجرات میں قائم کی گئی ایک وسیع آئل ریفائنری سے روزانہ ایک لاکھ بیرل تیل پورے ملک کو سپلائی کیا جاتا ہے۔
1770ء سے 1794ء کے دوران تعمیر کیے گئے قلعہ مظفّر گڑھ اور قلعہ خان کے علاوہ قلعہ محمود کوٹ،قلعہ غضنفر گڑھ،قلعہ دائرہ دین پناہ،قلعہ شاہ گڑھ جیسے تاریخی مقامات اگرچہ ماضی کا حصّہ بن چکے ہیں، تاہم ان کی باقیات اور نشانیاں اب بھی ماضی بعید کی یاددلاتی ہیں۔ 1475 ء میں تعمیر کی گئی شاہی مسجد اور مقبرہ طاہر خان نہڑبھی تاریخی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں، جب کہ 1909ء میں تعمیرکیا گیا ’’وکٹوریہ میموریل ہال‘‘ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ 1988 ء میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے اس کا نام تبدیل کرکے ’’یادگار کلب‘‘ رکھ دیا۔
جتوئی شہر کے نزدیک گاؤں کوٹلہ رحم علی شاہ میں واقع مسجد’’ سکینتہ الصغریٰ‘‘ ترک فنِ تعمیر کا نمونہ، ہے، جو32 گنبدوں اور 2 بڑے میناروں پر مشتمل ہے۔مسجد کا کل رقبہ 52 کنال ہےاور اس میں 5 ہزار افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔شہر کا واحد ’’فیاض پارک‘‘ قریباً4 دہائی قبل اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر فیاض بشیر کی ذاتی دل چسپی اور کاوش سے قائم ہوا، تاہم یہ خوب صورت پارک بھی سیاست اور کرپشن کی نذر ہوکر اجڑ گیا، اور اب نشے کے عادی افراد اور ہیروئنچیوں کی آماج گاہ ہے، جب کہ سعودی فرماں رواں، شاہ فیصل کے نام پر تعمیر کیا گیا ’’فیصل اسٹیڈیم‘‘ بھی ضلعی انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کرقریباً غیر فعال ہوچکا ہے۔ اسی طرح برطانوی دورِحکومت میں بنائے جانے والے ریلوے اسٹیشن سمیت اس دَور میں تعمیر کیے گئے ڈپٹی کمشنرآفس، ڈسٹرکٹ جیل، ضلع کاؤنسل ہال، پوسٹ آفس، محکمہ انہاراور محکمہ صحت کے دفاتربھی اپنی مدت پوری کرکے بوسیدہ اور ناکارہ ہوچکے ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قدیم تعمیرات پر خصوصی توجّہ دے کر انہیں دوبارہ ماضی کی طرح جاذبِ نظراور فعال بنایا جائے۔مظفّرگڑھ میں ہیڈ تونسہ بیراج اور ہیڈ پنجند جیسے اہمیت کے حامل مقامات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔تاہم،بدقسمتی سے وافر آمدنی کے حامل ضلعے میں درست حکمتِ عملی کے فقدان اور کرپشن کے باعث پَس ماندگی اور غربت میں اضافہ ہی ہوتاجارہا ہے۔
یہاں کے لاتعداد مسائل میں معیاری تعلیم کا فقدان، غربت، بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی، جاگیرداری نظام، کرپٹ سیاست دان اور بیورو کریسی وغیرہ سرفہرست ہیں۔ اگرچہ متعدد تعلیمی ادارے تو تعمیر کردیے گئے، لیکن ملّت کی تعمیر جیسے عظیم مقصد کو پسِ پشت ڈالنے کے باعث ضلعے میں جرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، خودکشی، قتل و اقدامِ قتل، خواتین پر تشدد، لڑائی جھگڑے، اغوا و زیادتی، چوری ڈکیتی، گھریلو جھگڑے اور طلاق کے واقعات کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ستم بالائے ستم متعدد وسائل کے باوجود یہاں کے عوام بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں۔ سرکاری اسپتال تو موجود ہیں، لیکن علاج معالجے کی دیگر سہولتوں اور ادویہ کی کمی کے باعث تقریباً غیرفعال ہیں۔ پھرموذی اور وبائی امراض کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے اور علاج معالجے کی ناکافی سہولتوں کے باعث بھی ہر سال ہزاروں موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
اگر ضلعے کی پَس ماندگی کی ایک بڑی وجہ، طویل عرصے سے یہاں کی سیاست میں چند خاندانوں کی اجارہ داری کو بھی قرار دیا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ ان خاندانوں میں کھر، قریشی، ہنجرا، بخاری، دستی، نواب، گرمانی، جتوئی، گوپانگ، چانڈیہ، لغاری اور سیال شامل ہیں۔ جب کہ ان ہی سرداروں میں سردار کوڑا خان مرحومؒ کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،جنہوں نے اپنی ہزاروں ایکڑ اراضی غریب و نادار لوگوں کے لیےوقف کرکے خدمتِ خلق کی عظیم مثال قائم کی۔ آج بھی ان کی جائیداد سے حاصل ہونے والی آمدنی نادار و مستحق افراد کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جارہی ہے۔2010ء میں مظفّرگڑھ میں آنے والے بدترین سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے، سیکڑوں انسانی جانوں کا زیاں ہوا۔ تاہم، مشکل کی اس گھڑی میں دیگر ممالک کے علاوہ دوست ملک ترکی نے خصوصی طور پر یہاں کے مصیبت زدہ لوگوں کی دل کھول کر مدد کی۔ ترکی کے تعاون سے ڈیرہ غازی خان روڈ پر اعلیٰ معیار کا 300 بیڈز پر مشتمل ایک اسپتال تعمیر کیا گیا، جہاں روزانہ سیکڑوں مریضوں کے مفت علاج کے ساتھ مفت ادویہ بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
صرف یہی نہیں، بلکہ غریب،بے گھر افراد کے لیے 1400گھروں پر مشتمل رہایشی کالونی بھی تعمیر کی گئی۔ ترکی کے تعاون سے بنایا گیا ’’رجب طیّب اردوان اسپتال‘‘ یہاں کے باسیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ بلاشبہ، دوست ملک تُرکی نے یہاں کے لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرکے دوستی اور انسانی ہم دردی کی ایک بڑی مثال قائم کی۔ ضلعے کے دیگر مسائل کی بات کی جائے، تو یہاں کی ٹوٹی پھوٹی خستہ حال سڑکیں برسوں سے تعمیر و مرمت کی راہ دیکھ رہی ہیں، پورے ضلعے میں صحت و صفائی اور نکاسیِ آب کا نظام انتہائی ناقص ہونے کے باعث ہیپاٹائیٹس، تپِ دق اورگُردوں سمیت سرطان جیسے خطرناک موذی امراض کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ فضائی آلودگی کے باعث آنکھوں، جِلد اور سانس کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ 2010 ءمیں آنے والے بدترین سیلاب کے بعد یہاں زیر ِزمین پینے کا پانی آلودہ ہونے سے متعدد بیماریاں پھیلنے لگیں، تو حکومتِ پنجاب کی جانب سے کروڑوں روپے کی لاگت سے صاف اور میٹھے پانی کا منصوبہ شروع کیا گیا، لیکن بدقسمتی سے یہ بھی کرپشن کی نذر ہوکر آج تک پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ اگرچہ سیلاب کی تباہی کے بعد بہت سے ممالک اور عالمی اداروں سے اربوں روپے کی امداد حاصل ہوئی، جس سے نئے سرے سے ایک نیا شہر بنایا جاسکتا تھا، تاہم بدقسمتی سے اس میں بھی زیادہ پیسا کرپشن ہی کی نذر ہوگیا۔ ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کے افسران کی ملی بھگت سے کئی سو ایکڑز پر موجود جنگلات کو اجاڑ دیا گیا، درختوں کی کٹائی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، جس کا سدّباب بے حد ضروری ہے۔
زرعی لحاظ سے یہاں کی زرخیز زمینیں بہترین پیداواری صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن نہری پانی کی غیر مساوی تقسیم اور پانی کی چوری کے باعث چھوٹے کاشت کاروں کی زمینیں بنجر ہوتی جارہی ہیں۔ ضلعے کی زرخیز زمینوں کا بیش تر حصّہ سرکاری تحویل میں ہے، اگر یہ زمینیں کاشت کاری کے لیے غریب ہاریوں کو دے دی جائیں، تٖو کروڑوں روپے ماہانہ آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے ملک کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی قبضہ مافیا نے کل سرکاری رقبے کے آدھے سے زیادہ حصّے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ شہر میں جگہ جگہ تجاوزات کے باعث بازار، سڑکیں اور گلیاں سکڑتی جارہی ہیں، جب کہ بسوں اور رکشوں کے غیر قانونی اڈوں اور بے ہنگم ٹریفک نے بھی شہر کا حُسن ماند کردیا ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت نے دوسرے اضلاع کی طرح مظفّرگڑھ میں بھی تجاوزات اور قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن شروع تو کیا ہے، لیکن سیاسی مداخلت کے باعث حالیہ آپریشن بُری طرح ناکام ہوتا نظر آتا ہے۔
مظفّر گڑھ کی اہم شخصیات …
ضلع مظفّر گڑھ سے تعلق رکھنے والے بہت سے سیاست دانوں نے ملک گیر شہرت پائی، جن میں نواب زادہ نصر اللہ خان، غلام مصطفیٰ کھر، سردار عبدالقیوم خان، نصرللہ خان جتوئی، حنا ربانی کھر اور جمشید احمد خان دستی کے علاوہ علم و فکر کے اعتبار سے پروفیسر شاہدہ حسین مرحوم، پروفیسر ڈاکٹر کریم ملک مرحوم، شجاعت مندخان، پروفیسر ڈاکٹر محمد شعیب خان قلندرانی اور محمد جمیل کے نام قابلِ ذکر ہیں، جب کہ مضطر بخاری اور رضا ٹوانہ نام وَر شاعر گزرے ہیں اور صحافتی حوالے سے خان عبدالکریم خان ،اعجاز رسول بھٹّہ، اے بی مجاہد اور عبدالسمیع خان کی خدمات کو بھی کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔