بچی کی والدہ نے بتایا کہ کہ وہ بچی کو ڈھونڈنے نکلی تو اسکول کے راستے میں کھیتوں سے بیٹی کے رونے کی آواز آرہی تھی، وہ کھیتوں کے قریب پہنچی تو ابیہا کو زیادتی کا نشانہ بنانے والا نامعلوم شخص موقع سے فرار ہوگیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ بچی کی والدہ کی مدعیت میں تھانہ دائرہ دین پناہ میں زیادتی کا مقدمہ درج کرلیا گیا جب کہ ملزم کی تلاش جاری ہے۔اس سے قبل لودھراں میں انسانیت سوز واقعہ پیش آیا جہاں ایک چار سالہ بچی کو 12 سالہ ملزمان نے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا اور زخمی حالت میں چھوڑ کر فرار ہو گئے، بچی کو کھیتوں سے بے ہوشی کی حالت میں برآمد کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق لودھراں کے نواحی علاقے میں دو سفاک ملزمان نے 4 سالہ بچی کو زبردستی کھیتوں میں لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔
لودھراں کے نواحی علاقے جلالہ آباد کے رہائشی مزدور محمد یاسین کی 4 سالہ بیٹی مدیحہ اپنی دادای اور والدہ کے ساتھ دس محرم الحرام کو قبرستان میں دادا کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے کیلیے گئی تھی کہ وہاں سے 12 سے 13 سالہ ملزمان طارق اور کامران نے بچی کو اغوا کر لیا، دونوں ملزمان بچی کو بے ہوشی کی حالت میں فصلوں میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔قبرستان میں آنے والے افراد کھالے سے پانی لینے گئے تو ساتھ ہی کپاس کی فصل میں بچی بے ہوشی کی حالت میں پڑی پائی گئی جس پر بچی کی والدہ اور دادی اوٹھا کر گھر لے آئے بعد ازاں واقعہ کی اطلاع مقامی پولیس تھانہ صدر کو کی گئی۔
خیال رہے کہ ملک بھر میں خواتین اور لڑکیوں سے زیادتی کے واقعات کے ساتھ ساتھ کم سن بچے اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں بھی ہوشربا اضافہ ہو اہے جس نے والدین کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ رواں برس بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یومیہ 12 سے زائد بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب بڑے صوبے پنجاب میں گذشتہ برس (سنہ 2020 میں) بچوں اور بچیوں کے ساتھ ریپ کے تقریباً 1337 سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ شدہ کیسز کے مطابق صوبے میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کے تقریباً 900 مبینہ واقعات ہوئے اور 400 سے زائد بچیوں کو مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔