مظفر گڑھ ،آم کی بھرپور پیداوار، بہترین کوالٹی کے حصول کیلئے جامع حکمت عملی مرتب کر لی گئی

مظفر گڑھ (مظفر گڑھ ڈاٹ سٹی۔ 09فروی 2015ء) مظفر گڑھ میں آم کی بھرپور پیداواراور بہترین کوالٹی کے حصول کیلئے جامع حکمت عملی مرتب کر لی گئی ہے۔ برآمد میں درپیش رکاوٹوں کے خاتمے کیلئے تمام کوششیں بروئے کار لائی جائینگی۔زرعی توسیع سرگرمیوں کے ذریعہ کاشتکاروں اورباغبان حضرات کیلئے ایک واضح شیڈول تیار کر لیا گیا ہے۔کھادوں اور پانی کے صحیح استعمال کے ساتھ پھل کی مکھی کے تدارک کیلئے تمام غیر روائتی طریقے استعمال کئے جائیں گے۔ان خیالات کا اظہار مہر عابد حسین ڈسٹرکٹ آفیسر زراعت توسیع مظفر گڑھ نے آم کے باغبانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ آم کی پیداواراوربہترین کوالٹی کے حوالہ سے ضلع مظفر گڑھ کو صوبہ پنجاب میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ضلع مظفر گڑھ میں 47ہزار ایکڑ سے زائد رقبہ پر آم کی کاشت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باغبان آم کی گدھیڑی کے انڈوں اور بچوں کی تلفی کے لئے پودوں کے نیچے زمین پر گوڈی کریں۔گدھیڑی کے بچوں کو پودوں پر چڑھنے سے روکنے اوران کی تلفی کے لئے مناسب زہر کا سپرے کریں۔دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع سے فروری کے آخر تک آم کی گدھیڑی کے زیر زمین انڈوں سے بچے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ انڈوں سے نکلنے کے بعد بچے درختوں پر چڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جہاں پر وہ درخت کی کونپلوں، بور اور نئے پتوں سے رس چوستے رہتے ہیں جس کی وجہ سے شاخیں اور پتے سوکھنے لگتے ہیں۔پھول مرجھا کر جھڑجاتے ہیں اور پھل گر جاتے ہیں۔ گدھیڑی کے کیڑے اپنے جسم سے میٹھا رس خارج کرتے ہیں جو پتوں پر گرتا رہتا ہے۔ پتوں پر کالی اُلی لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے پودوں کا خوراک بنانے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ پودے کمزور ہو جاتے ہیں اور پیداوار بہت کم ہو جاتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ انڈوں کی تلفی کے لئے باغ میں خصوصاً درختوں کے اردگرد 6 تا 7 انچ گہرائی تک گرمیوں میں اچھی طرح گوڈی کر کے مٹی کو الٹ پلٹ دیں تاکہ زمین میں موجود انڈے زمین کی سطح کے اوپر آ جائیں اور سورج کی حرارت، پرندوں یا چیونیٹیوں کے کھانے سے تلف ہو جائیں۔درختوں کے نیچے تنوں کے اردگرد مٹی ہٹا کر کے بھی انڈوں کو تلف کیاجا سکتا ہے۔مہر عابد حسین نے کہا کہ آم کے درختوں پر 70 سے زیادہ مختلف اقسام کے کیڑے حملہ آور ہوتے ہیں لیکن آم کی گدھیڑی معاشی نقصان پہنچانے والا ایک اہم کیڑا ہے۔ یہ کیڑا آم، سنگترہ، مالٹا، شہتوت، بیر، امرود اور جامن سمیت تقریباً 70 درختوں پر بھی حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ گھروں کے کمروں میں داخل ہوکر پریشانی کا باعث بنتا ہے۔مہر عابد حسین نے کہا کہ صوبہ پنجاب میں آم کی کاشت وسیع رقبہ پر ہوتی ہے۔ زمیندار ہرلحاظ سے آم کے باغات کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں۔ لیکن کیڑوں سے عدم واقفیت کی بناء پر تحفظ نباتات صحیح طور پر نہیں کر پاتے۔ جن کی وجہ سے ان کی پیداوارمتاثر ہوتی ہے۔ باغات کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھیں تاکہ گدھیڑی کو متبادل خوراکی پودے دستیاب نہ ہوں۔پودوں کے تنوں پر لگے ہوئے بند کا باقاعدہ معائنہ کرتے رہیں اگر بند خشک ہونا شروع ہو جائیں تو دوبارہ لگائیں جو شاخیں زمین کو چھو رہی ہوں ان کو کاٹ دیں تاکہ ان کے ذریعے گدھیڑی کو آم یادوسرے پھلدار درختوں پر چڑھنے کا موقع نہ ملے۔پودوں کے نیچے گدھیڑی کے بچے کثیر تعداد میں نظر آنے پر مٹی کے تیل یا زہروں کے استعمال سے ختم کریں۔آم کی گدھیڑی کے انسداد کے لئے غیر کیمیائی طریقوں پر باقاعدگی سے عمل کرنے سے کافی مدد ملتی ہے اوردرختوں پر چڑھنے سے روکا جا سکتا ہے نیز ان کا کنٹرول بھی آسان ہے لیکن اگر کسی وجہ سے یہ درختوں پر چڑھ جائیں تو اس کے انسداد کے لئے زرعی ماہرین کے مشورہ سے مناسب زہر کا سپرے کریں۔